پاکستان میں صوبہ پنجاب میں شعبہ زراعت اورخوراک میں زیادہ بہتر فی روپیہ نتائج حاصل کرنے کے لیے سرکاری اخراجات اور قوانین وضع کرنے سے کیا ہوسکتاہے ؟ کیا سرکاری اخراجات کے نیتجے میں غربت میں اورزیادہ کمی ، اعلیٰ صلاحیت واستعدار، زیادہ کاروباری مواقعوں اور بہتر غذائیت کے مواقع پیدا ہوسکتے ہیں ؟ خوراک کی بہتر معیشت کیسی دکھائی دے گی ؟ کسے فائد ہ ہوگا اور کسے نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔
پنجاب کے زراعت اور دیہی تبدیلی کے پانچ سالہ پروگرام کے آغاز کے ڈیڑھ سال بعد ان سوالات کے جوابات ابھی وضع کیے جا رہے ہیں کیونکہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے شعبوں ،مارکیٹوں اور دفاتر میں اصلاحات اور ترقی کی کوششیں کی جارہی ہیں لیکن ایک چیز واضح ہے کہ یہاں تبدیلی کی خواہش موجود ہے ۔
اگرچہ زراعت کے لیے 2017 میں سرکاری امداد مجموعی طور پر 1.3 بلین امریکی ڈالر رہی ہےلیکن گذشتہ چند سالوں میں ترقی کی کم شرح اور غیر یقینی صورت حال نے اس شعبے کو پسماندہ بنادیا جو ملازمت کا 40فیصد فراہم کرتا ہے اور صوبائی GDP میں اس کا حصہ 20فیصد سے زیادہ ہے ۔ یہ شعبہ مناسب غذائیت بھی فراہم نہیں کررہا ہے ۔ایک سروے سے معلوم ہوتا ہے کہ پنجاب میں 5 سال سے کم عمر کے بچوں کی نشوونما میں کمی پائی جاتی ہے ؟
یہ پروگرام اپنے نام کے مخفSMART کے نام سے مشہور ہے جسے کارکردگی کی بنیاد پر عالمی بینک کے پروگرام کے ذریعے مالی معاونت فراہم کی جاتی ہے ۔یہ پالیسی اور انتظامی تکنیکی جدتوں کومتعارف کرا کر ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرتا ہے ۔
جولائی 2019ء میں صوبے کے دورے نے تبدیلی کے عمل سے منسلک مواقعوں اور مسائل کی کئی تصاویر پیش کیں۔
زرعی انشورنس کے باعث کسانوں کی صلاحیت اور خوراک کے تحفظ میں اضافے سے کیافائدہہوتاہے ؟
پروین اختر اور اس کی دوبہنوںمختاراں بی بی اور گلزارہ بی بی سے ملیں ۔ وہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے جنوب سے تین گھنٹے کی مسافت پر ضلع ساہیوال کی تحصیل (ذیلی ضلع) چیچہ وطنی میں واقع 1.75 ایکٹر خاندانی زمین پر گندم اور کپاس کاشت کرتی ہیں۔ جب فصلوں کی تباہی اور خشک سالی کے باعث ان کی پیداوار کم ہوئی تو انہیں مجبوراً اپنی گائیں بھینس فروخت کرنا پڑیں اور ان کے بچوں کے لیے غذائیت کا ایک بیش قیمت ذریعہ بھی ختم ہوگیا۔ غذائیت مٹی سے حاصل ہوتی ہے جب صحت مند فصلیں نہیں ہوں گی تو ہمیں کم خوراک ملے گی ۔ پروین نے کہا ۔ہمارے پاس کاشتکاری کے علاوہ آمدن کاکوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے۔ ہم عام طور پر آٹے کی روٹی ،سبزیاں اور دالیں کھاتے ہیں ۔ گوشت ایک آسائشی چیز ہے جس سے ہم صرف مذہبی تہواروں جیسے عید کے موقع پر لطف اندوز ہوتے ہیں ۔
گذشتہ سال جب گلابی سنڈی نے کپاس کی فصل پر حملہ کیا اور گندم کو بھی نقصان ہوا تو خاندان کو 80000 پاکستانی روپے (تقریباً600 امریکی ڈالر ) کانقصان برداشت کرنا پڑا۔ 2018 میں متعارف کروائی گئی نئے علاقے کی پیداوار کے انڈکس پر مبنی فصل کی انشورنس کی سیکم 300000 کسانوں کااحاطہ کرتی ہے جس کے تحت ان نے بہنوں کو 20000 روپے فراہم کیے جو ان کے نقصان کی کل رقم سے کم ہے لیکن یہ رقم اپنے تمام جانور فروخت کرنے سے بچنے کے لیے کافی تھی ۔
"ہماری خواہش تھی کہ رقم زیادہ ہوتی لیکن ہم پھر بھی شگرگزارہیں۔پروین نے کہا۔ فصل کی انشورنس کے علاوہ ہر خاندان کو بہت کچھ خود بھی کرنا پڑتا ہے ۔ معاون ایجنٹس کے دورے کبھی کبھار ہوتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ پیداوار کم ہے اورکھادیں زیادہ مہنگی ہیں۔ بہنوں کی حکمت عملی اپنے لیے زیادہ گندم کاشت کرنا ہے جو روٹی کا اہم جزو ہے تاکہ خود کوآٹے کی بڑھتی قیمت سے محفوظ رکھا جائے ۔